گرتے ہوئے جب میں نے ترا نام لیا ہے
منزل نے وہیں بڑھ کے مجھے تھام لیا ہے
مے خوار تو ہے محتسب شہر زیادہ
رندوں نے یوں ہی مفت میں الزام لیا ہے
وہ مل نہ سکے یاد تو ہے ان کی سلامت
اس یاد سے بھی ہم نے بہت کام لیا ہے
ہر مرحلۂ غم میں ملی اس سے تسلی
ہر موڑ پہ گھبرا کے ترا نام لیا ہے
تجھ سا کوئی رہبر نہیں اے دورئ منزل
احسان ترا ہم نے بہر گام لیا ہے
اے شیخ دل صاف یوں ہی تو نہیں ملتا
ہم نے اثر روئے دل آرام لیا ہے
سجدوں میں وہ پہلی سے حلاوت نہیں کوثرؔ
جب سے اثر گردش ایام لیا ہے
غزل
گرتے ہوئے جب میں نے ترا نام لیا ہے
کوثر نیازی