EN हिंदी
گرتے ہوئے جب میں نے ترا نام لیا ہے | شیح شیری
girte hue jab maine tera nam liya hai

غزل

گرتے ہوئے جب میں نے ترا نام لیا ہے

کوثر نیازی

;

گرتے ہوئے جب میں نے ترا نام لیا ہے
منزل نے وہیں بڑھ کے مجھے تھام لیا ہے

مے خوار تو ہے محتسب شہر زیادہ
رندوں نے یوں ہی مفت میں الزام لیا ہے

وہ مل نہ سکے یاد تو ہے ان کی سلامت
اس یاد سے بھی ہم نے بہت کام لیا ہے

ہر مرحلۂ غم میں ملی اس سے تسلی
ہر موڑ پہ گھبرا کے ترا نام لیا ہے

تجھ سا کوئی رہبر نہیں اے دورئ منزل
احسان ترا ہم نے بہر گام لیا ہے

اے شیخ دل صاف یوں ہی تو نہیں ملتا
ہم نے اثر روئے دل آرام لیا ہے

سجدوں میں وہ پہلی سے حلاوت نہیں کوثرؔ
جب سے اثر گردش ایام لیا ہے