میں جسم و جاں کے کھیل میں بیباک ہو گیا
کس نے یہ چھو دیا ہے کہ میں چاک ہو گیا
کس نے کہا وجود مرا خاک ہو گیا
میرا لہو تو آپ کی پوشاک ہو گیا
بے سر کے پھر رہے ہیں زمانہ شناس لوگ
زندہ نفس کو عہد کا ادراک ہو گیا
کب تک لہو کی آگ میں جلتے رہیں گے لوگ
کب تک جئے گا وہ جو غضب ناک ہو گیا
زندہ کوئی کہاں تھا کہ صدقہ اتارتا
آخر تمام شہر ہی خاشاک ہو گیا
لہجے کی آنچ روپ کی شبنم بھی پی گئی
اجملؔ گلوں کی چھاؤں میں نمناک ہو گیا
غزل
میں جسم و جاں کے کھیل میں بیباک ہو گیا
کبیر اجمل