وہ موج ہوا جو ابھی بہنے کی نہیں ہے
ہم جانتے ہیں آپ سے کہنے کی نہیں ہے
یوں خوش نہ ہو اے شہر نگاراں کے در و بام
یہ وادئ سفاک بھی رہنے کی نہیں ہے
اے کاش کوئی کوہ ندا ہی سے پکارے
دیوار سکوت آپ ہی ڈھہنے کی نہیں ہے
کیوں عکس گریزاں سے چمک بجھ گئی دل کی
یہ رات تو مہتاب کے گہنے کی نہیں ہے
رقاصۂ صحرائے جنوں بھی ہے یہی موج
یک چشمۂ خوں ناب سے بہنے کی نہیں ہے
اک طرفہ تماشا ہے مجھے شوخی گفتار
آشفتگی میرؔ بھی سہنے کی نہیں ہے
غزل
وہ موج ہوا جو ابھی بہنے کی نہیں ہے
کبیر اجمل