ہوا کی زد پہ چراغ شب فسانہ تھا
مگر ہمیں بھی اسی سے دیا جلانا تھا
ہمیں بھی یاد نہ آئی بہار عشوہ طراز
اسے بھی ہجر کا موسم بہت سہانا تھا
سفر عذاب سہی دشت گمرہی کا مگر
کٹی طناب تو خیمہ اجڑ ہی جانا تھا
ہمیں نے رقص کیا نغمۂ فنا پر بھی
ہمیں ہی پلکوں پہ ہجرت کا بار اٹھانا تھا
اسی کی گونج ہے تار نفس میں اب کے میاں
صدائے ہو کو بھی ورنہ کسے جگانا تھا
ہم ایسے خاک نشینوں کا ذکر کیا کہ ہمیں
لہو کا قرض تو ہر حال میں چکانا تھا
وہ میرے خواب چرا کر بھی خوش نہیں اجملؔ
وہ ایک خواب لہو میں جو پھیل جانا تھا
غزل
ہوا کی زد پہ چراغ شب فسانہ تھا
کبیر اجمل