ہجوم سیارگاں میں روشن دیا اسی کا
فصیل شب پر بھی گل کھلائے ہوا اسی کا
اسی کی شہ پر طرف طرف رقص موج گریہ
تمام گرداب خوں پہ پہرا بھی تھا اسی کا
اسی کا لمس گداز روشن کرے شب غم
ہوائے مست وصال کا سلسلہ اسی کا
اسی کے غم میں دھواں دھواں چشم رنگ و نغمہ
سو عکس زار خیال بھی معجزہ اسی کا
اسی کے ہونٹوں کے پھول باب قبول چومیں
سو ہم اٹھا لائیں اب کے حرف دعا اسی کا
اسی سے اجملؔ تمام فصل غبار صحرا
اداس آنکھوں میں پھر بھی روشن دیا اسی کا
غزل
ہجوم سیارگاں میں روشن دیا اسی کا
کبیر اجمل