ہیں دیر و حرم میں تو بھرے شیخ و برہمن
جز خانۂ دل کیجئے پھر قصد کدھر کا
جوشش عظیم آبادی
ہم کو تو یاد نہیں ہم پہ جو گزری تجھ بن
تیرے آگے کہے جس کو یہ کہانی آئے
جوشش عظیم آبادی
ہمارے شعر کو سن کر سکوت خوب نہیں
بیان کیجئے اس میں جو کچھ تأمل ہو
جوشش عظیم آبادی
حسن اور عشق کا مذکور نہ ہووے جب تک
مجھ کو بھاتا نہیں سننا کسی افسانے کا
جوشش عظیم آبادی
انسان تو ہے صورت حق کعبے میں کیا ہے
اے شیخ بھلا کیوں نہ کروں سجدے بتاں کو
جوشش عظیم آبادی
جو آنکھوں میں پھرتا ہے پھرے آنکھوں کے آگے
آسان خدا کر دے یہ دشوار محبت
جوشش عظیم آبادی
جو ہے کعبہ وہ ہی بت خانہ ہے شیخ و برہمن
اس کی ناحق کرتے ہو تکرار دونوں ایک ہیں
جوشش عظیم آبادی