گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا
پر یہ سودائے محبت ہے نہیں جانے کا
مست رکھ یاد میں اس چشم کی تا روز جزا
منہ نہ دکھلا مجھے یارب کسی مے خانے کا
میرے دل کو بھی نہ ہووے ہوس بوسہ اگر
آشنا لب سے ترے لب نہ ہو پیمانے کا
حسن اور عشق کا مذکور نہ ہووے جب تک
مجھ کو بھاتا نہیں سننا کسی افسانے کا
کیوں نہ مضطر ہوں اسے دیکھ کے دیکھو تو سہی
شمع کے سامنے کیا حال ہے پروانے کا
ہاتھ اٹھتا نہیں اے یار جو سلجھانے سے
دل تری زلف سے الجھا ہے مگر شانے کا
گو کہ مر جائے ترے عشق میں ؔجوشش لیکن
شکوۂ جور و جفا منہ پہ نہیں لانے کا
غزل
گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا
جوشش عظیم آبادی