اپنا دشمن ہو اگر کچھ ہے شعور
انتظار وعدۂ فردا نہ کر
جوشش عظیم آبادی
بس کر یہ خیال آفرینی
اس کے ہی خیال میں رہا کر
جوشش عظیم آبادی
بے گنہ کہتا پھرے ہے آپ کو
شیخ نسل حضرت آدم نہیں
جوشش عظیم آبادی
بھول جاتا ہوں میں خدائی کو
اس سے جب رام رام ہوتی ہے
جوشش عظیم آبادی
چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے
بت پرستی بھی حق پرستی ہے
جوشش عظیم آبادی
چھپ چھپ کے دیکھتے ہو بہت اس کو ہر کہیں
ہوگا غضب جو پڑ گئی اس کی نظر کہیں
جوشش عظیم آبادی
احوال دیکھ کر مری چشم پر آب کا
دریا سے آج ٹوٹ گیا دل حباب کا
جوشش عظیم آبادی
دھیان میں اس کے فنا ہو کر کوئی منہ دیکھ لے
دل وہ آئینہ نہیں جو ہر کوئی منہ دیکھ لے
جوشش عظیم آبادی
دیوانے چاہتا ہے اگر وصل یار ہو
تیرا بڑا رقیب ہے دل اس سے راہ رکھ
جوشش عظیم آبادی