EN हिंदी
جوشش عظیم آبادی شیاری | شیح شیری

جوشش عظیم آبادی شیر

43 شیر

یہ سچ ہے کہ اوروں ہی کو تم یاد کرو گے
میرے دل ناشاد کو کب شاد کرو گے

جوشش عظیم آبادی




یہ زیست طرف دل ہی میں یارب تمام ہو
کافر ہوں گر ارادۂ بیت الحرام ہو

جوشش عظیم آبادی




زاہد نہ رہنے پائیں گے آباد مے کدے
جب تک نہ ڈھایئے گا تری خانقاہ کو

جوشش عظیم آبادی




زلف اور رخ کی پرستش شرط ہے
کفر ہو اے شیخ یا اسلام ہو

جوشش عظیم آبادی




داغ جگر کا اپنے احوال کیا سناؤں
بھرتے ہیں اس کے آگے شمع و چراغ پانی

جوشش عظیم آبادی




اے چرخ بے کسی پہ ہماری نظر نہ کر
جو کچھ کہ تجھ سے ہو سکے تو در گزر نہ کر

جوشش عظیم آبادی




اے زلف یار تجھ سے بھی آشفتہ تر ہوں میں
مجھ سا نہ کوئی ہوگا پریشان روزگار

جوشش عظیم آبادی




ایسی مرے خزانۂ دل میں بھری ہے آگ
فوارہ چھوٹتا ہے مژہ سے شرار کا

جوشش عظیم آبادی




اللہ تا قیامت تجھ کو رکھے سلامت
کیا کیا ستم نہ دیکھے ہم نے ترے کرم سے

جوشش عظیم آبادی