محروم طرب ہے دل دلگیر ابھی تک
باقی ہے ترے عشق کی تاثیر ابھی تک
وصل اس بت بد خو کا میسر نہیں ہوتا
وابستۂ تقدیر ہے تدبیر ابھی تک
اک بار سنی تھی سو مرے دل میں ہے موجود
اے جان تمنا تری تقریر ابھی تک
سیکھی تھی جو آغاز محبت میں قلم نے
باقی ہے وہ رنگینئ تحریر ابھی تک
اس درجہ نہ بیتاب ہو اے شوق شہادت
ہے میان میں اس شوخ کی شمشیر ابھی تک
کہنے کو تو میں بھول گیا ہوں مگر اے یار
ہے خانۂ دل میں تری تصویر ابھی تک
بھولی نہیں دل کو تری دزدیدہ نگاہی
پہلو میں ہے کچھ کچھ خلش تیر ابھی تک
تھے حق پہ وہ بے شک کہ نہ ہوتے تو نہ ہوتا
دنیا میں بپا ماتم شبیرؔ ابھی تک
گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک
غزل
محروم طرب ہے دل دلگیر ابھی تک
حسرتؔ موہانی