EN हिंदी
حسن عباس رضا شیاری | شیح شیری

حسن عباس رضا شیر

19 شیر

مکیں یہیں کا ہے لیکن مکاں سے باہر ہے
ابھی وہ شخص مری داستاں سے باہر ہے

حسن عباس رضا




آنکھوں سے خواب دل سے تمنا تمام شد
تم کیا گئے کہ شوق نظارہ تمام شد

حسن عباس رضا




میں پھر اک خط ترے آنگن گرانا چاہتا ہوں
مجھے پھر سے ترا رنگ بریدہ دیکھنا ہے

حسن عباس رضا




کیا شخص تھا اڑاتا رہا عمر بھر مجھے
لیکن ہوا سے ہاتھ ملانے نہیں دیا

حسن عباس رضا




کس کو تھی خبر اس میں تڑخ جائے گا دل بھی
ہم خوش تھے بہت صحن میں دیوار اٹھا کر

حسن عباس رضا




جدائی کی رتوں میں صورتیں دھندلانے لگتی ہیں
سو ایسے موسموں میں آئنہ دیکھا نہیں کرتے

حسن عباس رضا




ارادہ تھا کہ اب کے رنگ دنیا دیکھنا ہے
خبر کیا تھی کہ اپنا ہی تماشا دیکھنا ہے

حسن عباس رضا




ہمیشہ اک مسافت گھومتی رہتی ہے پاؤں میں
سفر کے بعد بھی کچھ لوگ گھر پہنچا نہیں کرتے

حسن عباس رضا




ہماری جیب میں خوابوں کی ریز گاری ہے
سو لین دین ہمارا دکاں سے باہر ہے

حسن عباس رضا