EN हिंदी
کسی کے ہجر میں یوں ٹوٹ کر رویا نہیں کرتے | شیح شیری
kisi ke hijr mein yun TuT kar roya nahin karte

غزل

کسی کے ہجر میں یوں ٹوٹ کر رویا نہیں کرتے

حسن عباس رضا

;

کسی کے ہجر میں یوں ٹوٹ کر رویا نہیں کرتے
یہ اپنا رنج ہے اور رنج کا چرچا نہیں کرتے

جدائی کی رتوں میں صورتیں دھندلانے لگتی ہیں
سو ایسے موسموں میں آئنہ دیکھا نہیں کرتے

زیادہ سے زیادہ دل بچھا دیتے ہیں رستے میں
مگر جس نے بچھڑنا ہو اسے روکا نہیں کرتے

ہمیشہ اک مسافت گھومتی رہتی ہے پاؤں میں
سفر کے بعد بھی کچھ لوگ گھر پہنچا نہیں کرتے

تنی رسی پہ دریا پار اترنا ہی مقدر ہو
تو پھر سینوں میں غرقابی کا ڈر رکھا نہیں کرتے

ہمیں رسوا کیا اس نیند میں چلنے کی عادت نے
وگرنہ جاگتے میں ہم کبھی ایسا نہیں کرتے

حسنؔ جب لڑکھڑا کر اپنے ہی پاؤں پہ گرنا ہو
تو پھر ایڑی پہ اتنی دیر تک گھوما نہیں کرتے