مکیں یہیں کا ہے لیکن مکاں سے باہر ہے
ابھی وہ شخص مری داستاں سے باہر ہے
اتر بھی سکتا ہے سرطان کی طرح مجھ میں
وہ عشق جو مرے وہم و گماں سے باہر ہے
سوال یہ نہیں مجھ سے ہے کیوں گریزاں وہ
سوال یہ ہے کہ کیوں جسم و جاں سے باہر ہے
نہ جانے کیسے ترازو ہوا مرے دل میں
وہ ایک تیر جو تیری کماں سے باہر ہے
مرے وجود کا آئینہ پوچھتا ہے مجھے
یہ عکس کب سے ترے خاک داں سے باہر ہے
خدا گواہ وہ اس درجہ خوبصورت تھی
کہ میرا شوق تماشا بیاں سے باہر ہے
ہماری جیب میں خوابوں کی ریز گاری ہے
سو لین دین ہمارا دکاں سے باہر ہے
مرا امین کوئی تھا تو وہ مرا ہم زاد
اور اب وہی مرے پسماندگاں سے باہر ہے
حسنؔ میں حدت ہجراں سے جل بھی سکتا ہوں
کہ میرا جسم ترے سائباں سے باہر ہے
غزل
مکیں یہیں کا ہے لیکن مکاں سے باہر ہے
حسن عباس رضا