سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا
ہم نے اسے چراغ جلانے نہیں دیا
دزدان نیم شب نے بھی حیلے بہت کیے
لیکن کسی کو خواب چرانے نہیں دیا
اب کے شکست و ریخت کا کچھ اور ہے سبب
اب کے یہ زخم تیری جفا نے نہیں دیا
اس بار تو سوال بھی مشکل نہ تھا مگر
اس بار بھی جواب قضا نے نہیں دیا
کیا شخص تھا اڑاتا رہا عمر بھر مجھے
لیکن ہوا سے ہاتھ ملانے نہیں دیا
ممکن ہے وجہ ترک تعلق اسی میں ہو
وہ خط جو مجھ کو باد صبا نے نہیں دیا
اس حیرتی نظر کی سمٹتی گرفت نے
اٹھتا ہوا قدم بھی اٹھانے نہیں دیا
شام وداع تھی مگر اس رنگ باز نے
پاؤں پہ ہونٹ رکھ دیے جانے نہیں دیا
کچھ تو حسنؔ وہ داد و ستد کے کھرے نہ تھے
کچھ ہم نے بھی یہ قرض چکانے نہیں دیا

غزل
سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا
حسن عباس رضا