خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ
نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا
فضا ابن فیضی
کہاں وہ لوگ جو تھے ہر طرف سے نستعلیق
پرانی بات ہوئی چست بندشیں لکھنا
فضا ابن فیضی
جلا ہے شہر تو کیا کچھ نہ کچھ تو ہے محفوظ
کہیں غبار کہیں روشنی سلامت ہے
فضا ابن فیضی
ہر اک قیاس حقیقت سے دور تر نکلا
کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا
فضا ابن فیضی
ہم حسین غزلوں سے پیٹ بھر نہیں سکتے
دولت سخن لے کر بے فراغ ہیں یارو
فضا ابن فیضی
غزل کے پردے میں بے پردہ خواہشیں لکھنا
نہ آیا ہم کو برہنہ گزارشیں لکھنا
فضا ابن فیضی
ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیل وجود
دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا
فضا ابن فیضی
دیکھنا ہیں کھیلنے والوں کی چابک دستیاں
تاش کا پتا سہی میرا ہنر تیرا ہنر
فضا ابن فیضی
اے فضاؔ اتنی کشادہ کب تھی معنی کی جہت
میرے لفظوں سے افق اک دوسرا روشن ہوا
فضا ابن فیضی