EN हिंदी
پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا | شیح شیری
paya-e-KHisht-o-KHazaf aur guhar se uncha

غزل

پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا

فضا ابن فیضی

;

پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا
قد یہاں بے ہنری کا ہے ہنر سے اونچا

ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیل وجود
دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا

مانگتا کس سے مجھے سنگ سرافرازی دے
کوئی دروازہ تو ہوتا ترے در سے اونچا

ہم قدم ہے تپش جاں تو پہنچ جاؤں گا
ایک دو جست میں دیوار شجر سے اونچا

ایک بگڑی ہوئی تمثیل ہیں سارے چہرے
کوئی منظر نہیں معیار نظر سے اونچا

دھوپ اتری تو سمٹنا پڑا خود میں اس کو
ایک سایہ کہ جو تھا اپنے شجر سے اونچا

بلبلہ اٹھنے کو اٹھا تو مگر بیچارہ
رکھ سکا خود کو نہ دریا کے بھنور سے اونچا

کیسی پستی میں یہ دنیا نے بسایا ہے مجھے
نظر آتا ہے ہر اک گھر مرے گھر سے اونچا

وہ کہاں سے یہ تخیل کے افق لائے گا
آسماں اب بھی نہیں ہے مرے سر سے اونچا

خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ
نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا