ہر اک قیاس حقیقت سے دور تر نکلا
کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا
نفس تمام ہوا داستان ختم ہوئی
جو تھا طویل وہی حرف مختصر نکلا
جو گرد ساتھ نہ اڑتی سفر نہ یوں کٹتا
غبار راہ گزر موج بال و پر نکلا
مجھے بھی کچھ نئے تیشے سنبھالنے ہی پڑے
پرانے خول کو جب وہ بھی توڑ کر نکلا
فضا کشادہ نہیں قتل گاہ کی یہ کہاں
مرے لہو کا پرندہ اڑان پر نکلا
وہ آدمی کہ جو محمل تھا آفتابوں کا
بہ قدر یک دو کف خاک رہ گزر نکلا
یہ رات جس کے لیے میں نے جاگ کر کاٹی
ملا وہ شخص تو خوابوں کا ہم سفر نکلا
اڑھا دی چادر عصمت اسے خیالوں نے
ہر ایک لفظ زباں سے برہنہ سر نکلا
فضاؔ تم الجھے رہے فکر و فلسفے میں یہاں
بہ نام عشق وہاں قرعۂ ہنر نکلا
غزل
ہر اک قیاس حقیقت سے دور تر نکلا
فضا ابن فیضی