رائیگاں سب کچھ ہوا کیسی بصیرت کیا ہنر
گرد گرد اپنی بصیرت خاک خاک اپنا ہنر
جس طرف دیکھو ہجوم چہرۂ بے چہرگاں
کس گھنے جنگل میں یارو گم ہوا سب کا ہنر
اب ہماری مٹھیوں میں ایک جگنو بھی نہیں
چھین کر بے رحم موسم لے گیا سارا ہنر
توڑ کر اس کو بھی اب کوئی ہوا لے جائے گی
یہ جو برگ سبز کے مانند ہے میرا ہنر
اب کہاں دل کے لہو میں بھیگی بھیگی آگہی
جیب میں ہم بھی لیے پھرتے ہیں مانگے کا ہنر
دیکھنا ہیں کھیلنے والوں کی چابک دستیاں
تاش کا پتا سہی میرا ہنر تیرا ہنر
گرمی پہلو یہی تشکیک و لا علمی کی آنچ
ذوق گمشدگی سے ہم ہیں با خبر یا با ہنر
بس یہی خاکستر جاں ہے یہاں اپنی شناخت
ہو گیا سارا بدن جب راکھ تو چمکا ہنر
شخصیت کا یہ توازن تیرا حصہ ہے فضاؔ
جتنی سادہ ہے طبیعت اتنا ہی تیکھا ہنر
غزل
رائیگاں سب کچھ ہوا کیسی بصیرت کیا ہنر
فضا ابن فیضی