روح اور بدن دونوں داغ داغ ہیں یارو
پھر بھی اپنے بام و در بے چراغ ہیں یارو
آؤ ہم میں ڈھل جاؤ عمر بھر کے پیاسے ہیں
تم شراب ہو یارو ہم ایاغ ہیں یارو
جن پہ بارش گل ہے ان کا حال کیا ہوگا
زخم کھانے والے بھی باغ باغ ہیں یارو
جن کو رہ کے کانٹوں میں خوش مزاج ہونا تھا
وہ مقام گل پا کر بے دماغ ہیں یارو
ہم سے مل کے فطرت کے پیچ و خم کو سمجھو گے
ہم جہان فطرت کا اک سراغ ہیں یارو
نا شناسوں کی تحسیں رنگ لائی ہے کیا کیا
کوئلے بھی اب لعل شب چراغ ہیں یارو
ہم حسین غزلوں سے پیٹ بھر نہیں سکتے
دولت سخن لے کر بے فراغ ہیں یارو
غزل
روح اور بدن دونوں داغ داغ ہیں یارو
فضا ابن فیضی