ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا
فریاد آزر
ایسی خوشیاں تو کتابوں میں ملیں گی شاید
ختم اب گھر کا تصور ہے مکاں باقی ہے
فریاد آزر
بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی
اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے
فریاد آزر
ہم ابتدا ہی میں پہنچے تھے انتہا کو کبھی
اب انتہا میں بھی ہیں ابتدا سے لپٹے ہوئے
فریاد آزر
اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے
فریاد آزر
جو دور رہ کے اڑاتا رہا مذاق مرا
قریب آیا تو رویا گلے لگا کے مجھے
فریاد آزر
میں اپنی روح لیے در بہ در بھٹکتا رہا
بدن سے دور مکمل وجود تھا میرا
فریاد آزر
میں جس میں رہ نہ سکا جی حضوریوں کے سبب
یہ آدمی ہے اسی کامیاب موسم کا
فریاد آزر
میں اس کی باتوں میں غم اپنا بھول جاتا مگر
وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے
فریاد آزر