سبب تھی فطرت انساں خراب موسم کا
فرشتے جھیل رہے ہیں عذاب موسم کا
وہ تشنہ لب بھی فریب نظر میں آئے گا
اسے بھی ڈھونڈ ہی لے گا سراب موسم کا
درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے
بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا
میں جس میں رہ نہ سکا جی حضوریوں کے سبب
یہ آدمی ہے اسی کامیاب موسم کا
اسی امید میں جوہی سے بھر گیا آنگن
کہ کھلنے والا ہے اب کے گلاب موسم کا
بہار ہو گئی پھر اپنے آپ شرمندہ
کیا تھا دل نے بھی وہ انتخاب موسم کا
کھلیں جو نیند سے آنکھیں ہماری یاں آذرؔ
گزر چکا تھا زمانہ بھی خواب موسم کا
غزل
سبب تھی فطرت انساں خراب موسم کا
فریاد آزر