اسی فتور میں کرب و بلا سے لپٹے ہوئے
تمام عمر گنوا دی انا سے لپٹے ہوئے
ابھی بھی مل نہ سکی ان کی خامشی کو زباں
یہ لوگ اب بھی ہیں صوت و صدا سے لپٹے ہوئے
ہوا کے شہر میں بس سانس لینے آتے ہیں
وگرنہ اہل زمیں ہیں خلا سے لپٹے ہوئے
ہر ایک سمت لگا ہے خموشیوں کا ہجوم
یہ کون لوگ ہیں کوہ ندا سے لپٹے ہوئے
ہنسی بھی آتی ہے ان پر ترس بھی آتا ہے
یہ نفرتوں کے پجاری خدا سے لپٹے ہوئے
ہم ابتدا ہی میں پہنچے تھے انتہا کو کبھی
اب انتہا میں بھی ہیں ابتدا سے لپٹے ہوئے
میں زندگی کے مسائل سے لڑنا چاہتا ہوں
مگر وہ ہاتھ نگار حنا سے لپٹے ہوئے
وگرنہ ختم نہ ہوتا گہن کبھی آذرؔ
اندھیرے خوف زدہ تھے ضیا سے لپٹے ہوئے
غزل
اسی فتور میں کرب و بلا سے لپٹے ہوئے
فریاد آزر