سراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
یہ کون چھپ گیا صحراؤں میں بلا کے مجھے
میں اس کی باتوں میں غم اپنا بھول جاتا مگر
وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے
اسے یقین کہ میں جان دے نہ پاؤں گا
مجھے یہ خوف کہ روئے گا آزما کے مجھے
جو دور رہ کے اڑاتا رہا مذاق مرا
قریب آیا تو رویا گلے لگا کے مجھے
میں اپنی قبر میں محو عذاب تھا لیکن
زمانہ خوش ہوا دیواروں پر سجا کے مجھے
یہاں کسی کو کوئی پوچھتا نہیں آزرؔ
کہاں پہ لائی ہے اندھی ہوا اڑا کے مجھے
غزل
سراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
فریاد آزر