صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
اب تو ہر شہر ہے اک شہر طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
ایک لمحہ بھی ٹھہرتا نہیں لمحہ کوئی
پیش منظر پس منظر میں بدل جاتا ہے
نقش ابھرتا ہے امیدوں کا فلک پر کوئی
اور پھر دھند کی چادر میں بدل جاتا ہے
بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی
اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے
اپنے مفہوم پہ پڑتی نظر جب اس کی
لفظ اچانک بت ششدر میں بدل جاتا ہے
غزل
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
فریاد آزر