ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا
نہ جانے کون سی ادا بری لگی تھی روح کو
بدن کا پھر تمام کھیل کود ختم ہو گیا
معاہدے ضمیر سے تو کر لیے گئے مگر
مسرتوں کا دورۂ وفود ختم ہو گیا
بدن کی آستین میں یہ روح سانپ بن گئی
وجود کا یقیں ہوا وجود ختم ہو گیا
بس اک نگاہ ڈال کر میں چھپ گیا خلاؤں میں
پھر اس کے بعد برف کا جمود ختم ہو گیا
مجاز کا سنہرا حسن چھا گیا نگاہ پر
کھلی جو آنکھ جلوۂ شہود ختم ہو گیا
غزل
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
فریاد آزر