EN हिंदी
بسمل سعیدی شیاری | شیح شیری

بسمل سعیدی شیر

19 شیر

محبت میں خدا جانے ہوئیں رسوائیاں کس سے
میں ان کا نام لیتا ہوں وہ میرا نام لیتے ہیں

بسمل سعیدی




دو دن میں ہو گیا ہے یہ عالم کہ جس طرح
تیرے ہی اختیار میں ہیں عمر بھر سے ہم

بسمل سعیدی




کیا تباہ تو دلی نے بھی بہت بسملؔ
مگر خدا کی قسم لکھنؤ نے لوٹ لیا

بسمل سعیدی




کسی کے ستم اس قدر یاد آئے
زباں تھک گئی مہرباں کہتے کہتے

بسمل سعیدی




خوشبو کو پھیلنے کا بہت شوق ہے مگر
ممکن نہیں ہواؤں سے رشتہ کئے بغیر

tho fragrance is very fond, to spread around, increase
this is nigh impossible, till it befriends the breeze

بسمل سعیدی




کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے

بسمل سعیدی




عشق بھی ہے کس قدر بر خود غلط
ان کی بزم ناز اور خودداریاں

بسمل سعیدی




ادھر ادھر مری آنکھیں تجھے پکارتی ہیں
مری نگاہ نہیں ہے زبان ہے گویا

بسمل سعیدی




حسن بھی کمبخت کب خالی ہے سوز عشق سے
شمع بھی تو رات بھر جلتی ہے پروانے کے ساتھ

when is poor beauty saved from the
along with the moths all night the flame did surely burn

بسمل سعیدی