محبت میں خدا جانے ہوئیں رسوائیاں کس سے
میں ان کا نام لیتا ہوں وہ میرا نام لیتے ہیں
بسمل سعیدی
دو دن میں ہو گیا ہے یہ عالم کہ جس طرح
تیرے ہی اختیار میں ہیں عمر بھر سے ہم
بسمل سعیدی
کیا تباہ تو دلی نے بھی بہت بسملؔ
مگر خدا کی قسم لکھنؤ نے لوٹ لیا
بسمل سعیدی
کسی کے ستم اس قدر یاد آئے
زباں تھک گئی مہرباں کہتے کہتے
بسمل سعیدی
خوشبو کو پھیلنے کا بہت شوق ہے مگر
ممکن نہیں ہواؤں سے رشتہ کئے بغیر
tho fragrance is very fond, to spread around, increase
this is nigh impossible, till it befriends the breeze
بسمل سعیدی
کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے
بسمل سعیدی
عشق بھی ہے کس قدر بر خود غلط
ان کی بزم ناز اور خودداریاں
بسمل سعیدی
ادھر ادھر مری آنکھیں تجھے پکارتی ہیں
مری نگاہ نہیں ہے زبان ہے گویا
بسمل سعیدی
حسن بھی کمبخت کب خالی ہے سوز عشق سے
شمع بھی تو رات بھر جلتی ہے پروانے کے ساتھ
when is poor beauty saved from the
along with the moths all night the flame did surely burn
بسمل سعیدی