بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا
بشر نواز
گھٹتی بڑھتی روشنیوں نے مجھے سمجھا نہیں
میں کسی پتھر کسی دیوار کا سایا نہیں
بشر نواز
جانے کن رشتوں نے مجھ کو باندھ رکھا ہے کہ میں
مدتوں سے آندھیوں کی زد میں ہوں بکھرا نہیں
بشر نواز
کہتے کہتے کچھ بدل دیتا ہے کیوں باتوں کا رخ
کیوں خود اپنے آپ کے بھی ساتھ وہ سچا نہیں
بشر نواز
کوئی یادوں سے جوڑ لے ہم کو
ہم بھی اک ٹوٹتا سا رشتہ ہیں
بشر نواز
پیار کے بندھن خون کے رشتے ٹوٹ گئے خوابوں کی طرح
جاگتی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کیا کیا کاروبار ہوئے
بشر نواز
تیز ہوائیں آنکھوں میں تو ریت دکھوں کی بھر ہی گئیں
جلتے لمحے رفتہ رفتہ دل کو بھی جھلسائیں گے
بشر نواز
تجھ میں اور مجھ میں تعلق ہے وہی
ہے جو رشتہ ساز اور مضراب میں
بشر نواز
وہی ہے رنگ مگر بو ہے کچھ لہو جیسی
یہ اب کی فصل میں کھلتے گلاب کیسے ہیں
بشر نواز