کیا کیا لوگ خوشی سے اپنی بکنے پر تیار ہوئے
ایک ہمیں دیوانے نکلے ہم ہی یہاں پر خوار ہوئے
پیار کے بندھن خون کے رشتے ٹوٹ گئے خوابوں کی طرح
جاگتی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کیا کیا کاروبار ہوئے
آپ وہ سیانے رستے کے ہر پتھر کو بت مان لیا
ہم وہ پاگل اپنی راہ میں آپ ہی خود دیوار ہوئے
اپنی اپنی جگہ پر دونوں بے بس بھی مسرور بھی ہیں
تم تحریر سنگ ہوئے ہم بھولا ہوا اقرار ہوئے
آنے والی صبح گنے گی رات کے اندھے طوفاں میں
کتنے ساحل ہی پر ڈوبے کتنے بھنور کے پار ہوئے
غزل
کیا کیا لوگ خوشی سے اپنی بکنے پر تیار ہوئے
بشر نواز