گھٹتی بڑھتی روشنیوں نے مجھے سمجھا نہیں
میں کسی پتھر کسی دیوار کا سایا نہیں
جانے کن رشتوں نے مجھ کو باندھ رکھا ہے کہ میں
مدتوں سے آندھیوں کی زد میں ہوں بکھرا نہیں
زندگی بپھرے ہوئے دریا کی کوئی موج ہے
اک دفعہ دیکھا جو منظر پھر کبھی دیکھا نہیں
ہر طرف بکھری ہوئی ہیں آئینے کی کرچیاں
ریزہ ریزہ عکس ہیں سالم کوئی چہرا نہیں
کہتے کہتے کچھ بدل دیتا ہے کیوں باتوں کا رخ
کیوں خود اپنے آپ کے بھی ساتھ وہ سچا نہیں
غزل
گھٹتی بڑھتی روشنیوں نے مجھے سمجھا نہیں
بشر نواز