EN हिंदी
ارشد علی خان قلق شیاری | شیح شیری

ارشد علی خان قلق شیر

74 شیر

بنا کر تل رخ روشن پر دو شوخی سے سے کہتے ہیں
یہ کاجل ہم نے یارا ہے چراغ ماہ تاباں پر

ارشد علی خان قلق




آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل
اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

ارشد علی خان قلق




بعد میرے جو کیا شاد کسی کو تو کہا
ہم کو اس وقت وہ ناشاد بہت یاد آیا

ارشد علی خان قلق




اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی
دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو

ارشد علی خان قلق




اے پری زاد جو تو رقص کرے مستی میں
دانۂ تاک ہر اک پاؤں میں گھنگھرو ہو جائے

ارشد علی خان قلق




اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں
کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا

ارشد علی خان قلق




اگر نہ جامۂ ہستی مرا نکل جاتا
تو اور تھوڑے دنوں یہ لباس چل جاتا

ارشد علی خان قلق




اگر نہ جامۂ ہستی مرا نکل جاتا
تو اور تھوڑے دنوں یہ لباس چل جاتا

ارشد علی خان قلق




ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

ارشد علی خان قلق