منزل ہے اپنی اپنی قلقؔ اپنی اپنی گور
کوئی نہیں شریک کسی کے گناہ میں
ارشد علی خان قلق
میں وہ میکش ہوں ملی ہے مجھ کو گھٹی میں شراب
شیر کے بدلے پیا ہے میں نے شیرہ تاک کا
ارشد علی خان قلق
مے جو دی غیر کو ساقی نے کراہت دیکھو
شیشۂ مے کو مرض ہو گیا ابکائی کا
ارشد علی خان قلق
لاغر ایسا وحشت عشق لب شیریں میں ہوں
چیونٹیاں لے جانی ہیں دانہ مری زنجیر کا
ارشد علی خان قلق
کیا کوئی دل لگا کے کہے شعر اے قلقؔ
ناقدریٔ سخن سے ہیں اہل سخن اداس
ارشد علی خان قلق
کفر و اسلام کے جھگڑوں سے چھڑایا صد شکر
قید مذہب سے جنوں نے مجھے آزاد کیا
ارشد علی خان قلق
کچھ خبر دیتا نہیں اس کی دل آگہ مجھے
وحی کے مانند اب موقوف ہے الہام کا
ارشد علی خان قلق
کوتاہ عمر ہو گئی اور یہ نہ کم ہوئی
اے جان آ کے طول شب انتظار دیکھ
ارشد علی خان قلق
خوش قدوں سے کبھی عالم نہ رہے گا خالی
اس چمن سے جو گیا سرو تو شمشاد آیا
ارشد علی خان قلق