EN हिंदी
تھا قصد قتل غیر مگر میں طلب ہوا | شیح شیری
tha qasd-e-qatl-e-ghair magar main talab hua

غزل

تھا قصد قتل غیر مگر میں طلب ہوا

ارشد علی خان قلق

;

تھا قصد قتل غیر مگر میں طلب ہوا
جلاد مہربان ہوا کیا سبب ہوا

افسوس کچھ نہ میری رہائی کا ڈھب ہوا
چھوٹا ادھر قفس سے ادھر میں طلب ہوا

تشریف لائے آپ جو میں جاں بہ لب ہوا
اس وقت کے بھی آنے کا مجھ کو عجب ہوا

نکلے گی اب نہ حسرت قتل اے نگاہ یاس
قاتل کو رحم آ گیا مجھ پر غضب ہوا

ہو جائے گا کچھ اور ہی رنگ اہل حشر کا
قاتل سے خوں بہا جو ہمارا طلب ہوا

شاید بڑھائیں یار نے منت کی بیڑیاں
اب کی مجھے جنوں نہ ہوا کیا سبب ہوا

پنہاں تمام ظلمت کفر و ستم ہوئی
طالع جوں ہی وہ مہر سپہر عرب ہوا

ہم ڈوب جائیں گے عرق انفعال میں
اعمال نامہ حشر میں جس دم طلب ہوا

اتنا تو جذب دل نے دکھایا مجھے اثر
چین اس کو بھی نہ آیا میں بیتاب جب ہوا

روتے تھے عقل و ہوش ہی کو ہم تو عشق میں
لو اب تو دل سے صبر بھی رخصت‌ طلب ہوا

اے بے خودیٔ دل مجھے یہ بھی خبر نہیں
کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا

شادی شب وصال کی ماتم ہوئی مجھے
ہنگام صبح یار جو رخصت طلب ہوا

بوسے دکھا دکھا کے ہمیں لے رہا ہے یہ
کیوں اتنا بے لحاظ ترا خال لب ہوا

کیا جان کر ملال دیے کب کا تھا غبار
کس روز آسماں سے میں راحت طلب ہوا

دنیا میں اے قلقؔ جو پر ارمان ہم رہے
ناشاد نامراد ہمارا لقب ہوا