EN हिंदी
ارشد علی خان قلق شیاری | شیح شیری

ارشد علی خان قلق شیر

74 شیر

راہ حق میں کھیل جاں بازی ہے او ظاہر پرست
کیا تماشا دار پر منصور نے نٹ کا کیا

ارشد علی خان قلق




مثال آئنہ ہم جب سے حیرتی ہیں ترے
کہ جن دنوں میں نہ تھا تو سنگار سے واقف

ارشد علی خان قلق




مبارک دیر و کعبہ ہوں قلقؔ شیخ و برہمن کو
بچھائیں گے مصلیٰ چل کے ہم محراب ابرو میں

ارشد علی خان قلق




مجھ سے ان آنکھوں کو وحشت ہے مگر مجھ کو ہے عشق
کھیلا کرتا ہوں شکار آہوئے صحرائی کا

ارشد علی خان قلق




نیا مضمون لانا کاٹنا کوہ و جبل کا ہے
نہیں ہم شعر کہتے پیشۂ فرہاد کہتے ہیں

ارشد علی خان قلق




پھنس گیا ہے دام کاکل میں بتان ہند کے
طائر دل کو ہمارے رام دانا چاہئے

ارشد علی خان قلق




پھر گیا آنکھوں میں اس کان کے موتی کا خیال
گوش گل تک نہ کوئی قطرۂ شبنم آیا

ارشد علی خان قلق




پھر مجھ سے اس طرح کی نہ کیجے گا دل لگی
خیر اس گھڑی تو آپ کا میں کر گیا لحاظ

ارشد علی خان قلق




پوچھا صبا سے اس نے پتا کوئے یار کا
دیکھو ذرا شعور ہمارے غبار کا

ارشد علی خان قلق