EN हिंदी
ارشد علی خان قلق شیاری | شیح شیری

ارشد علی خان قلق شیر

74 شیر

کعبے سے کھینچ لایا ہم کو صنم کدے میں
بن کر کمند الفت زنار برہمن کا

ارشد علی خان قلق




جمے کیا پاؤں میرے خانۂ دل میں قناعت کا
جگر میں چٹکیاں لیتا ہے ناخن دست حاجت کا

ارشد علی خان قلق




آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل
اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

ارشد علی خان قلق




ہوا میں رند مشرب خاک مر کر اس تمنا میں
نماز آخر پڑیں گے وہ کسی دن تو تیمم سے

ارشد علی خان قلق




ہمت کا زاہدوں کی سراسر قصور تھا
مے خانہ خانقاہ سے ایسا نہ دور تھا

ارشد علی خان قلق




حضرت عشق نے دونوں کو کیا خانہ خراب
برہمن بت کدہ اور شیخ حرم بھول گئے

ارشد علی خان قلق




ہم ان سے اور وہ ہم سے دم صلح تھے خجل
چھینٹے لڑا کئے عرق انفعال کے

ارشد علی خان قلق




ہم تو نہ گھر میں آپ کے دم بھر ٹھہرنے آئیں
روز آئیں جائیں صورت انفاس اور لوگ

ارشد علی خان قلق




گل گوں تری گلی رہے عاشق کے خون سے
یا رب نہ ہو خزاں سے یہ تیرا چمن خراب

ارشد علی خان قلق