EN हिंदी
انور مسعود شیاری | شیح شیری

انور مسعود شیر

32 شیر

ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے

انور مسعود




ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انورؔ مری سوچیں علاقائی نہیں

انور مسعود




ڈوبے ہوئے تاروں پہ میں کیا اشک بہاتا
چڑھتے ہوئے سورج سے مری آنکھ لڑی تھی

انور مسعود




دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہئے

انور مسعود




دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

انور مسعود




دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی

انور مسعود




بے حرص و غرض قرض ادا کیجیے اپنا
جس طرح پولس کرتی ہے چالان وغیرہ

انور مسعود




انورؔ اس نے نہ میں نے چھوڑا ہے
اپنے اپنے خیال میں رہنا

انور مسعود




انورؔ مری نظر کو یہ کس کی نظر لگی
گوبھی کا پھول مجھ کو لگے ہے گلاب کا

انور مسعود