EN हिंदी
انور مسعود شیاری | شیح شیری

انور مسعود شیر

32 شیر

آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے

انور مسعود




آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا

انور مسعود




آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے

انور مسعود




آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے ید بیضا ہوگا

انور مسعود




اے دل ناداں کسی کا روٹھنا مت یاد کر
آن ٹپکے گا کوئی آنسو بھی اس جھگڑے کے بیچ

انور مسعود




عجیب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں
سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا

انور مسعود




انورؔ مری نظر کو یہ کس کی نظر لگی
گوبھی کا پھول مجھ کو لگے ہے گلاب کا

انور مسعود




انورؔ اس نے نہ میں نے چھوڑا ہے
اپنے اپنے خیال میں رہنا

انور مسعود




بے حرص و غرض قرض ادا کیجیے اپنا
جس طرح پولس کرتی ہے چالان وغیرہ

انور مسعود