EN हिंदी
اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا | شیح شیری
ishaaraton ki wo sharhen wo tajziya bhi gaya

غزل

اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا

انور مسعود

;

اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا
جو گرد متن بنا تھا وہ حاشیہ بھی گیا

وہ دل ربا سے جو سپنے تھے لے اڑیں نیندیں
دھنک نگر سے وہ دھندلا سا رابطہ بھی گیا

عجیب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں
سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا

ہمیں بھی بننے سنورنے کا دھیان رہتا تھا
وہ ایک شخص کہ تھا ایک آئینہ بھی، گیا

بڑا سکون ملا آج اس کے ملنے سے
چلو یہ دل سے توقع کا وسوسہ بھی گیا

گلوں کو دیکھ کے اب راکھ یاد آتی ہے
خیال کا وہ سہانا تلازمہ بھی گیا

مسافرت پہ میں تیشے کے سنگ نکلا تھا
جدھر گیا ہوں مرے ساتھ راستہ بھی گیا

ہمیں تو ایک نظر نشر کر گئی انورؔ
ہمارے ہاتھ سے دل کا مسودہ بھی گیا