ان دنوں خود سے فراغت ہی فراغت ہے مجھے
عشق بھی جیسے کوئی ذہنی سہولت ہے مجھے
میں نے تجھ پر ترے ہجراں کو مقدم جانا
تیری جانب سے کسی رنج کی حسرت ہے مجھے
خود کو سمجھاؤں کہ دنیا کی خبر گیری کروں
اس محبت میں کوئی ایک مصیبت ہے مجھے
دل نہیں رکھتا کسی اور تمنا کی ہوس
ایسا ہو پائے تو کیا اس میں قباحت ہے مجھے
ایک بے نام اداسی سے بھرا بیٹھا ہوں
آج جی کھول کے رو لینے کی حاجت ہے مجھے
غزل
ان دنوں خود سے فراغت ہی فراغت ہے مجھے
انجم سلیمی