اچھے موسم میں تگ و تاز بھی کر لیتا ہوں
پر نکل آتے ہیں پرواز بھی کر لیتا ہوں
تجھ سے یہ کیسا تعلق ہے جسے جب چاہوں
ختم کر دیتا ہوں آغاز بھی کر لیتا ہوں
گنبد ذات میں جب گونجنے لگتا ہوں بہت
خامشی توڑ کے آواز بھی کر لیتا ہوں
یوں تو اس حبس سے مانوس ہیں سانسیں میری
ویسے دیوار میں در باز بھی کر لیتا ہوں
سب کے سب خواب میں تقسیم نہیں کر دیتا
ایک دو خواب پس انداز بھی کر لیتا ہوں
غزل
اچھے موسم میں تگ و تاز بھی کر لیتا ہوں
انجم سلیمی