EN हिंदी
کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا | شیح شیری
kaghaz tha main diye pe mujhe rakh diya gaya

غزل

کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا

انجم سلیمی

;

کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا
اک اور مرتبے پہ مجھے رکھ دیا گیا

اک بے بدن کا عکس بنایا گیا ہوں میں
بے آب آئینے پہ مجھے رکھ دیا گیا

کچھ تو کھنچی کھنچی سی تھی ساعت وصال کی
کچھ یوں بھی فاصلے پہ مجھے رکھ دیا گیا

منہ مانگے دام دے کے خریدا اور اس کے بعد
اک خاص زاویے پہ مجھے رکھ دیا گیا

کل رات مجھ کو چوری کیا جا رہا تھا یار
اور میرے جاگنے پہ مجھے رکھ دیا گیا

اچھا بھلا پڑا تھا میں اپنے وجود میں
دنیا کے راستے پہ مجھے رکھ دیا گیا

پہلے تو میری مٹی سے مجھ کو کیا چراغ
پھر میرے مقبرے پہ مجھے رکھ دیا گیا

انجمؔ ہوا کے زور پہ جانا ہے اس طرف
پانی کے بلبلے پہ مجھے رکھ دیا گیا