میں نے آنکھوں میں جلا رکھا ہے آزادی کا تیل
مت اندھیروں سے ڈرا رکھ کہ میں جو ہوں سو ہوں
انیس انصاری
نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی
جب ہے فرعون نہ چنگیز کا لشکر باقی
انیس انصاری
تری آنکھوں نے دھویا ہے مجھے یوں
میں بالکل صاف ستھرا ہو گیا ہوں
انیس انصاری
تری محفل میں سب بیٹھے ہیں آ کر
ہمارا بیٹھنا دشوار کیوں ہے
انیس انصاری
توتلی عمر میں جو بچہ ذرا مشفق تھا
کچھ بڑا ہو کے دہانے پہ نہ پہنچا آخر
انیس انصاری
تم درد کی لذت کیا جانو کب تم نے چکھے ہیں زہر سبو
ہم اپنے وجود کے شاہد ہیں سنگسار ہوئے شمشیر ہوئے
انیس انصاری
تم کو بھی پہچان نہیں ہے شاید میری الجھن کی
لیکن ہم ملتے رہتے تو اچھا ہی رہتا جانم
انیس انصاری