نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی
جب ہے فرعون نہ چنگیز کا لشکر باقی
اپنے چہروں کو سیاہی میں چھپانے والو
نوک نیزہ پہ ہے سورج سا کوئی سر باقی
تیرے ورثے پہ ہیں غاصب کی عقابی نظریں
غفلتوں سے نہیں رہتے یہ جواہر باقی
اک صدف سطح سمندر پہ بہا جاتا ہے
اور ساحل پہ نہیں ایک شناور باقی
ایک صف ہوں تو بنیں سیسہ پلائی دیوار
ہوں عدو کے لئے راہیں نہ کہیں در باقی
قدر کم ہوتی ہے تقسیم جو ہوتا ہے عدو
حاصل جمع میں برکت ہے برابر باقی
جال پھر لایا ہے صیاد پھنسانے کے لئے
مل کے اڑ جائیں پرندے نہ رہے ڈر باقی
ظلم سے سر کو نہ ٹکرائیں تو پھر سجدہ کریں
ہاں پتہ ہے کہ در ہوگا نہ کہیں سر باقی
ہم شہیدوں کو کبھی مردہ نہیں کہتے انیسؔ
رزق جنت میں ملے شان یہاں پر باقی
غزل
نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی
انیس انصاری