جہاں در تھا وہاں دیوار کیوں ہے
الگ نقشے سے یہ معمار کیوں ہے
خدا آزاد تھا حاکم کی حد سے
خدا کے شہر میں سرکار کیوں ہے
بہت آسان ہے مل جل کے بہنا
ندی اور دھار میں پیکار کیوں ہے
ہزاروں رنگ کے پھولوں سے کھنچ کر
بنا ہے شہد تو بیکار کیوں ہے
کسی بھی سمت سے آ کر پرندے
سجائیں جھیل تو آزار کیوں ہے
تری محفل میں سب بیٹھے ہیں آ کر
ہمارا بیٹھنا دشوار کیوں ہے
بنا کر رکھ تو گھر اچھا رہے گا
تو مالک بن کرایہ دار کیوں ہے
تمہارے ساتھ ہم آگے بڑھے تھے
ہماری پیٹھ پر تلوار کیوں ہے
خدا سے کیا رقابت ہے صنم کی
رہ مسجد نظر میں خار کیوں ہے
عبارت میں نہ کر تحریف بے جا
ہمارے نام سے بیزار کیوں ہے
پرندے کو جو موقع دو دکھا دے
بندھے پر کا سفر لاچار کیوں ہے
پڑوسی ہو تو پھل یا پھول لاتے
تمہارے ہاتھ میں ہتھیار کیوں ہے
زمیں پھیلی ہوئی ہے آسماں تک
بس اک ٹکڑے پہ یوں تکرار کیوں ہے
غزل
جہاں در تھا وہاں دیوار کیوں ہے
انیس انصاری