حصار مقتل جاں میں لہو لہو میں تھا
رسن رسن مری وحشت گلو گلو میں تھا
جو رہ گیا نگہ سوزن مشیت سے
قبائے زیست کا وہ چاک بے رفو میں تھا
زمانہ ہنستا رہا میری خود کلامی پر
ترے خیال سے مصروف گفتگو میں تھا
تھا آئنے میں شکست غرور یکتائی
کہ اپنے عکس کے پردے میں ہو بہ ہو میں تھا
تو اپنی ذات کے ہر پیچ و خم سے پوچھ کے دیکھ
قدم قدم مری آہٹ تھی کو بہ کو میں تھا
ہر ایک وادی و کہسار سے گزرتا ہوا
جو آبشار بنا تھا وہ آب جو میں تھا
ختن ختن تھی شلنگ غزال میرے لیے
بدن بدن مرا نشہ سبو سبو میں تھا
تمام عمر کی دیوانگی کے بعد کھلا
میں تیری ذات میں پنہاں تھا اور تو میں تھا
مآل عمر محبت ہے بس یہی تشنہؔ
مری تلاش تھا وہ اس کی جستجو میں تھا
غزل
حصار مقتل جاں میں لہو لہو میں تھا
عالم تاب تشنہ