کس کس سے دوستی ہوئی یہ دھیان میں نہیں
ان میں سے ایک بھی مرے سامان میں نہیں
رسم وفا کا اس سے نبھانا بھی ہے محال
ترک تعلقات بھی امکان میں نہیں
باندھیں کسی سے عہد وفا ہم تو کس طرح
اک تار بھی تو اپنے گریبان میں نہیں
کیوں ہم نے ہار مان لی کیوں ڈال دی سپر
یہ سانحہ شکست کے اعلان میں نہیں
یہ جاں سپردگی ہے اسی ایک بات پر
جو بات میرے عشق کے پیمان میں نہیں
شوریدگی کو ہیں سبھی آسودگی نصیب
وہ شہر میں ہے کیا جو بیابان میں نہیں
تشنہؔ وہ شب لکھی ہے ہمارے نصیب میں
جس کی سحر کا ذکر بھی امکان میں نہیں
غزل
کس کس سے دوستی ہوئی یہ دھیان میں نہیں
عالم تاب تشنہ