عادت سے لاچار ہے عادت نئی عجیب
جس دن کھایا پیٹ بھر سویا نہیں غریب
اختر نظمی
اب نہیں لوٹ کے آنے والا
گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا
اختر نظمی
بھاری بوجھ پہاڑ سا کچھ ہلکا ہو جائے
جب میری چنتا بڑھے ماں سپنے میں آئے
اختر نظمی
چھیڑ چھاڑ کرتا رہا مجھ سے بہت نصیب
میں جیتا ترکیب سے ہارا وہی غریب
اختر نظمی
جیون بھر جس نے کئے اونچے پیڑ تلاش
بیری پر لٹکی ملی اس چڑیا کی لاش
اختر نظمی
کھول دیے کچھ سوچ کر سب پنجروں کے دوار
اب کوئی پنچھی نہیں اڑنے کو تیار
اختر نظمی
لوٹا گیہوں بیچ کر اپنے گاؤں کسان
بٹیا گڑیا سی لگی پتنی لگی جوان
اختر نظمی
مری طرف سے تو ٹوٹا نہیں کوئی رشتہ
کسی نے توڑ دیا اعتبار ٹوٹ گیا
اختر نظمی
ناؤ کاغذ کی چھوڑ دی میں نے
اب سمندر کی ذمہ داری ہے
اختر نظمی