سلسلہ زخم زخم جاری ہے
یہ زمیں دور تک ہماری ہے
اس زمیں سے عجب تعلق ہے
ذرے ذرے سے رشتہ داری ہے
میں بہت کم کسی سے ملتا ہوں
جس سے یاری ہے اس سے یاری ہے
ناؤ کاغذ کی چھوڑ دی میں نے
اب سمندر کی ذمہ داری ہے
بیچ ڈالا ہے دن کا ہر لمحہ
رات تھوڑی بہت ہماری ہے
ریت کے گھر تو بہہ گئے لیکن
بارشوں کا خلوص جاری ہے
کوئی نظمیؔ گزار کر دیکھے
میں نے جو زندگی گزاری ہے
غزل
سلسلہ زخم زخم جاری ہے
اختر نظمی