EN हिंदी
نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے | شیح شیری
na dil se aah na lab se sada nikalti hai

غزل

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے

احمد فراز

;

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے
مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے

ستم تو یہ ہے کہ عہد ستم کے جاتے ہی
تمام خلق مری ہم نوا نکلتی ہے

وصال و ہجر کی حسرت میں جوئے کم مایہ
کبھی کبھی کسی صحرا میں جا نکلتی ہے

میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے

وہ زندگی ہو کہ دنیا فرازؔ کیا کیجے
کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے