EN हिंदी
ادا جعفری شیاری | شیح شیری

ادا جعفری شیر

41 شیر

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے

ادا جعفری




ہوا یوں کہ پھر مجھے زندگی نے بسر کیا
کوئی دن تھے جب مجھے ہر نظارہ حسیں ملا

ادا جعفری




جس کی باتوں کے فسانے لکھے
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید

ادا جعفری




جس کی جانب اداؔ نظر نہ اٹھی
حال اس کا بھی میرے حال سا تھا

ادا جعفری




جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا

ادا جعفری