مجھے رنگ خواب سے زندگی کا یقیں ملا
کبھی دل دکھا تو کچھ اور بھی وہ قریں ملا
کوئی قصہ ہجر و وصال کا نہ سنا مجھے
جو حریم درد تک آ گیا سو وہیں ملا
سر خواب ہی کبھی تم بھی تو مجھے دیکھتے
وہ طلسم تھا کہ فلک بھی زیر نگیں ملا
اسی آئنہ سے ملیں گی میری گواہیاں
تمہیں عکس میرا جس آئنہ میں نہیں ملا
کہیں نقش پا کوئی موج رنگ نہیں تھی میں
میں وہ سوچ ہوں جسے اعتبار جبیں ملا
مری زندگی کڑی دھوپ میں تو کٹی مگر
مری چھاؤں سا کوئی سائباں بھی کہیں ملا
ہوا یوں کہ پھر مجھے زندگی نے بسر کیا
کوئی دن تھے جب مجھے ہر نظارہ حسیں ملا
غزل
مجھے رنگ خواب سے زندگی کا یقیں ملا
ادا جعفری